جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نیک عمل میں خلوص کے ضوابط

سوال

کسی بھی عمل سے پہلے نیت ہونا اور صحیح نیت ہونا ضروری ہے، تو یہ صحیح نیت کیسے ہو گی؟ اور یہ کون سے معیارات اور ضوابط ہیں جن سے معلوم ہو کہ عمل کی نیت خالص اللہ کے لیے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

درست نیت اور عمل سے پہلے اسے دل میں رکھنا مسلمان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے؛ کیونکہ اسی کی بنیاد پر عمل قبول یا مسترد ہو گا، اسی پر دل کی اصلاح اور خرابی کا مدار ہے۔

جسے یہ چاہت ہے کہ اس کے عمل میں صحیح نیت ہو تو سب سے پہلے لازمی طور پر اس چیز کی طرف دیکھے کہ اسے اس عمل پر ابھارنے والی کیا چیز ہے؟ اس لیے کوشش کرے کہ عمل پر ابھارنے والی چیز رضائے الہی ،اللہ کی اطاعت اور اللہ کے حکم کی تعمیل ہو۔ تو پھر نیت خالص اللہ کے لیے ہو گی، پھر عمل کے لیے ابھارنے والی للہیت پر مبنی اس بنیادی چیز کی حفاظت بھی کرے کہ دوران عمل اس سے دائیں بائیں نہ ہو، دل اور نیت اس سے نہ ہٹے، دوران عمل غیر اللہ کی جانب قلبی میلان نہ ہو، نہ ہی کسی اور قسم کی شراکت اس میں آئے۔

دوم:
کسی بھی نیکی کو کرتے ہوئے انسان یہ پہچان سکتا ہے کہ اس کے اس عمل میں کس حد تک خلوص ہے؟ اور یہ کہ وہ صرف اللہ کے لیے ہی عمل کر رہا ہے؟ اس کے لیے درج ذیل امور کو مد نظر رکھے:

  • انسان کوئی بھی عمل اس لیے نہ کرے کہ لوگ اسے دیکھیں اور اسے سنیں۔
    اس حوالے سے سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شہرت کا طالب ہو اللہ اس کی مشہوری کر دے گا، اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے اللہ اس کا عمل دکھا دے گا۔)
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    "علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ: جو شخص کوئی عمل اخلاص کے بغیر اس لیے کرے کہ لوگ اسے دیکھیں اور سنیں ، تو اسے اسی چیز کا بدلہ دیا جائے گا کہ اللہ تعالی اسے بد نامی دے گا اور اس کی حقیقت سب کے سامنے عیاں کر دے گا۔
    یہ بھی کہا گیا ہے کہ: جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں کے ہاں جاہ و منزلت کا طلب گار ہو، رضائے الہی اس کا مطمع نظر نہ ہو تو اللہ تعالی اسے انہی لوگوں کے ہاں زبان زد عام کر دے جن کے ہاں منزلت کا اس نے ارادہ کیا تھا، لیکن آخرت میں اس کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔" ختم شد
    " فتح الباری" (11/ 336)
    ایسے ہی العز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیک عمل کو خفیہ رکھنا مستحب ہے، لیکن اس سے یہ کیفیت مستثنی ہو گی جس میں نیک عمل کو ظاہر کرنے کا مقصد یہ ہو کہ لوگ بھی نیکی میں شریک ہوں، یا اس نیک عمل سے لوگوں کو فائدہ ہو مثلاً: علمی تحریریں لکھنا وغیرہ" ختم شد
    " فتح الباری" (11/ 337)
  • لوگوں کی مدح اور مذمت اس کے دل پر اثر انداز نہ ہو۔
    ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    "جس وقت بندے کے قدم منزلِ "اخبات" پر ٹک جاتے ہیں اور مضبوط ہو جاتے ہیں تو انسان کی ہمت بلند اور خود مدح و ذم کے تیروں سے بالا ہو جاتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کی مدح سرائی سے خوش نہیں ہوتا، اور لوگوں کی مذمت سے غمگین نہیں ہوتا۔ جو شخص ذاتیات سے باہر نکل چکا ہو اس کی یہی کیفیت ہوتی ہے، اور وہ اپنے رب کی بندگی کا اہل بن چکا ہوتا ہے، اسے دلی طور پر ایمان و یقین کی مٹھاس حاصل ہوتی ہے۔" ختم شد
    " مدارج السالكين " (2/ 8)
  • نیک عمل کو خفیہ رکھنا اور اسے لوگوں کے سامنے عیاں نہ کرنا زیادہ پسند ہو۔
    جیسے کہ عاصم رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ: "ابو وائل جس وقت اپنے گھر میں نماز ادا کرتے تو ان کی ہچکی بندھ جاتی، اور اگر پوری دنیا کے عوض انہیں کسی ایک شخص کے سامنے ایسا کرنے کا کہا جاتا تو کبھی نہ روتے۔" امام احمد نے " الزهد " (ص 290) میں اسے روایت کیا ہے۔
  • کوشش کرے کہ شہرت کی جگہوں سے دور رہے، الا کہ کوئی شرعی مصلحت ہو تو گنجائش ہے۔
    ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شہرت کا پیاسا اللہ تعالی کے ساتھ سچا نہیں ہے۔" ختم شد
    " إحياء علوم الدين " (3/ 297)
  • لوگوں کے مطلع ہونے کی وجہ سے اپنے عمل میں اضافہ یا خوبصورتی پیدا نہ کرے۔
    کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: "اخلاص یہ ہے کہ: انسان کے خلوت اور جلوت دونوں میں اعمال یکساں ہوں۔ جبکہ ریا کاری یہ ہے کہ: انسان کی جلوت خلوت سے اچھی لگے۔" ختم شد
    "مدارج السالكين" (2/ 91)
  • ہمیشہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے، اپنے بارے میں یہ نہ سمجھے کہ وہ بڑی فضیلت کا اہل ہے، اور یہ یقین رکھے کہ بڑی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، اور اگر ذات باری تعالی نہ ہو تو وہ ہلاک ہو جائے۔
    فرمانِ باری تعالی ہے:
     وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ
     ترجمہ: اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک باز نہ ہوتا، لیکن اللہ تعالی جسے چاہتا ہے پاکباز بنا دیتا ہے۔[النور: 21]
  • نیکی کرنے کے بعد کثرت سے استغفار کرے؛ کیونکہ اسے احساس ہے کہ اس نیکی کو بھی کما حقہ ادا نہیں کر سکا۔
    چنانچہ علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    "بندے کو چاہیے کہ جب بھی عبادت سے فراغت ہو تو عبادت میں حاصل ہونے والی کوتاہی پر اللہ تعالی سے استغفار کرے، اور عمل کی توفیق پر اللہ کا شکر ادا کرے، اس شخص کی طرح نہ ہو کہ جو عبادت مکمل ہونے پر اللہ تعالی پر احسان جھاڑنا شروع کر دے، اپنے آپ کو بڑا اور بلند سمجھنے لگے ایسا شخص تو اللہ تعالی کی ناراضی کا مستحق اور اس کا عمل مسترد ہونے کے قابل ہے، جبکہ پہلا شخص قبولیت اور نیکیوں کے لیے مزید توفیق کا حق دار ہے۔" ختم شد
    " تفسیر سعدی" (ص 92)
  • اللہ تعالی کی طرف سے نیک عمل کی توفیق ملنے پر خوش ہو۔
    اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
    قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ
    ترجمہ: کہہ دے: یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے، سو اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں۔ یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ [یونس: 58]

اپنے عمل میں مذکورہ امور کا خیال رکھنے والے کے متعلق بہت زیادہ امید ہے کہ وہ شخص اپنے عمل میں مخلص ہے۔

جبکہ کسی عمل کے متعلق اخلاص کا قطعی حکم لگانا ممکن ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی کو ہی ہے، تاہم بندہ اخلاص کے اسباب اپنائے اور اللہ تعالی سے نیک عمل کی توفیق اور اخلاص مانگے، اور خلوص کا قطعی حکم نہ تو اپنے لیے لگائے اور نہ ہی کسی دوسرے کے عمل پر قطعی حکم لگائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب